Tuesday, July 7, 2015

ابن عبدالرشید کی آٹو بائیوگرافی تصنیف  : محمد حسنین رضا ابن محمد عبدالرشید

میری پیدائش کو ابھی 3 سال مکمل نہ ہونے پائے تھے کہ عصر کے وقت ہمارے گھر کے نمبر پر ایک کال موصول ہوئی جو میری ننھیال کے رشتہ سے خالہ اور ددھیال کے رشتہ سے تائی اماں نے سنی دوسری جانب ماموں لطیف لائن پر تھے تائی اماں کے ہیلو کرنے پر  انہوں نے فوراً پہچانتے ہو ئے باجی کہہ کر مخاطب کیا اور کہا '' خاموش رہئیے گا کسی کو نہیں بتائیے گا '' اس رازدارانہ انداز نے تائی اماں کو چونکا دیا انہوں نے حیرانی سے پوچھا '' لطیف خیر تو ہے '' اب کی بار جو آواز آئی اس سے بولنے والے کی شکستہ دلی واضح تھی  اس جملے نے ہمارے تمام گھر والوں پر قیامت ڈھا دیا ، تائی اماں کے ہاتھوں فون کا ریسیور چھوٹ گیا،  کاش ہمارے گھر میں ٹیلی فون ہی نہ ہو تا ، آج کے دن کا سورج ہی نہ نکلتا  ،   کاش کیلنڈر میں آج کا دن ہی نہ ہوتا کاش. . . . کاش.  . . . . کاش. . . .  تاکہ یہ خبر ہی ہم تک نہ پہنچتی کہ باجی جمیلہ فوت ہو گئیں ہیں .
تائی اماں کی چیخ نکل گئی روتے ہوئے کمرے سے باہر نکلیں اور آکر بڑی باجی جو نے صحن میں واشنگ مشین لگا ئے ہوئے تھیں انہیں سینے سے لگا لیا اور تائی اماں نے آہیں اور سسکیاں بھرتے ہوئے یہ خبر سنائی تو کوئی بھی ضبط نہ کر پایا ہر کوئی میری دونوں بہنوں کو سینے سے لگا کر دلاسے دینے لگا میں اس وقت 7 دن کم 3 سال کی عمر میں صحن میں بیٹھا کھیل رہا تھا ، اس نا آشنا منظر کو دیکھ کر رو دیا مجھ کیا معلوم تھا کہ ماں کی ممتا کیسے سایہ دار درخت کو کہتے ہیں جس کا پرتو اب میرے سر پہ نہیں رہا ، مجھے کیا شعور کہ جس کی گفتگو دعا ہو ، جس کی خدمت کرنا سعادت مندی ہو ، جس کی نظر میں رہنا رحمت اور قدموں کو چومنا جنت کی بشارت ہو اس مقدس ہستی کو ماں کہتے ہیں جس کی محبت اب میرے مقدر میں نہیں رہی . مجھے تو بس اتنا پتہ تھا کہ میری نظر جس کا تعاقب بھی کر رہی ہے وہ آنسو بہاتا آنکھیں پونچھتا ہی نظر آ رہا ہے کوئی لپک کے بھائیوں کا سر اپنے کندھے پہ رکھ کہ روتے ہوئے دلاسہ دے رہا ہے تو کوئی عورت بہنوں کو سینے سے لگا کہ تسلی دیتی ہوئی نظر آ رہی ہے کل تک میں جن کی گود میں سوتا تھا آج وہ خود ماں کی گود سے محروم ہو چکے تھے  آدھی رات کے وقت امی جان کی میت نارووال پہنچی میں تو کیا معلوم کس کی گود میں سو چکا تھا
    لیکن جن جن کی گود میں مجھے نیند آتی تھی وہ سب رات بھر جاگتے رہے سوائے امی جان کے وہ تو اب ابدی نیند سو چکے تھے انہیں تو ابھی کراما کاتبین کی طرف سے یہ بھی حکم ملنے والا تھا '' دلہن کی طرح سو جا ''
     یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی کہ صوفی عبدالرشید رضوی صاحب کی زوجہ محترمہ قضائے الٰہی سے انتقال کر گئیں ہیں اسی طرح کے اعلانات بھی علی الصبح نارووال اور اس کے گردونواح کی مساجد میں ہونے لگے.
      امی جان کی میت صحن میں عام و خاص خواتین کے لئے رکھ دی گئی خواتین آتیں اور امی جان کی زیارت کرتی ہوئیں بیٹھ جاتیں امی جان جو کے اس سے کچھ دن پہلے تک ہر آنے والے کو  خود آگے بڑھ کے ملتیں آج انہیں بے بسی کے اس عالم میں دیکھ کر اور ہر جاننے والی یا انجان عورت کو روتا ہوا دیکھ کر میں اور بھی زاروقطار رونے لگا جب میں خاموش نہ ہوا تو احمد بھائی جو ابھی سات دن بعد میرے 3 سال کا ہونے پر مجھے بہت زیادہ چیزیں دلوانے والے تھے انہوں نے وہ چیزیں مجھے ابھی دلوا دیں کیونکہ میں تو چیزوں کے لالچ میں آکر چپ کر سکتا تھا باقیوں کو چپ کروانا ان کے بس میں نہیں تھا میں پھر روتے ہوئے سو گیا اس کے بعد جب اٹھا تو مجھے ابا جان کے پاس لے گئے وہاں ابا جان کے پاس مردوں کا جم غفیر تها ابا جان ہر آنے والے کو اٹھ اٹھ کے مل رہے تھے اتنے میں جنازے کا وقت ہو گیا ہر طبقہ فکر کے لوگوں نے اس میں شرکت کی لوگ قصیدہ بردہ شریف پڑھتے ہوئے جا رہے تھے جنازگاہ میں پہنچ کر ابا جان نے خود اپنی نگرانی میں صفیں بنوائیں اور جنازے کے بعد امی جان کو جامعہ معصومیہ کی مشرقی دیوار کے سائے میں دفن کیا گیا جہاں وہ ہر وقت کلام اللہ تعالیٰ کی تلاوت سنتی رہتیں ہیں یقیناً ان کو وہاں جا کر اجنبیت محسوس نہیں ہوئی ہو گی کہ جنہوں نے ساری زندگی قرآن مجید پڑہتے ہوئے استاذ القرآء کی زوجیت میں گزار دی ہو انہیں جب ہر وقت قرآن مجید کی تلاوت کی آواز آتی ہو گی وہ کیسے اجنبیت محسوس کر سکتیں ہیں.
اجنبیت کا احساس تو مجھ جیسے غریب المحبت الام کے لیے ہے کہ جب ہر کوئی ماں کے محبت بھرے سائے پروان چڑھ رہا ہو اور مجھ غریب کے دامن میں ماں کی ممتا جیسی دولت کی پھوار بھی نہ برسی ہو.
     آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ یا الہی اپنی اس نیک بندی کو جس کی حمایت سے ہمارے گھر میں اسلامی ماحول پروان چڑھا، جنت الفردوس میں اپنے محبوب کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کا پڑوس عطا فرما
                               آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم
.
اقتباس از ابن عبدالرشید کی آٹو بائیوگرافی
تصنیف  : محمد حسنین رضا ابن محمد عبدالرشید رضوی

Thursday, November 14, 2013

Data sab , ( داتا صاحب


(تعارف مظہر نور (خدارحمۃاللہ علی
صاحبزادہ محمد حسنین رضا0067168-336-0092
e-mail:ibneabdulrasheed@gmail.com
۴۰۰ھ ؁ یا ۴۰۱ھ ؁ بمطابق ۱۰۰۹ء ؁ میں برصغیر پاک وہند کی کایا پلٹنے والے مستقبل کے قطب الاقطاب اپنے وقت کے علمی گھرانہ میں پیدا ہوئے۔
ٓ آپ کے والد محترم افغانستان کے شہر غزنی کے محلہ جلاب میں رہتے تھے جہاں آپ کی پیدائش ہوئی پھر والد محترم کی وفات کے بعدآپ اپنی والدہ محترمہ کے ہمراہ اپنے ننھیا ل محلہ ہجویر میں منتقل ہو گئے
آپ کا نام علی رکھا گیا جبکہ کنیت ابوالحسن ہے آپ حنفی المذہب اور حسنی سید ہیںآپ کا شجرہ نسب نو واسطوں سے امام حسن(رضی اللہ عنہ) سے جا ملتا ہے۔
آپ کا شجرہ نسب کچھ یوں ہے علی بن عثمان بن علی بن عبدالرحمن بن عبداللہ بن ابوالحسن علی بن حسن بن زید شہید بن امام حسن بن علی المرتضی(رحمۃاللہ علیہم)
آپ کا سلسلہ بیعت جنیدیہ ہے جو کہ آپ سے نو واسطوں میں حضرت علی (رضی اللہ تعالی )تک پہنچتا ہےآپ کا شجرہ طریقت کچھ یوں ہے علی بن عثمان مرید ہیں خواجہ ابوالفضل بن حسن ختُلی کے وہ مرید ہیں شیخ علی کے وہ مرید ہیں وہ ابوبکر شبلی کے وہ جنید بغدادی کے وہ سری سقطی کے وہ معرو کر خی کے وہ داؤد طائی کے وہ حبیب عجمی کے وہ حسن بصری کے اور وہ حضرت علی المرتضٰیٰ(رضی اللہ عنہ) کے مرید ہیں۔
آپ نے تعلیم حاصل کرنے کے لیئے مختلف جگہ کا سفر کیا جن میں شام،عراق،بغداد،مدائن، فارس،آزر بائیجان،خراسان سر فہرست ہیں ایک روایت کے مطابق آپ نے صرف خراسان میں 300علماء کے سامنے زانوئے تلمذ طے کیے آپنے ابو سعید، ابو الخیر، ابوالقاسم قشیری سے بھی اکتساب فیض کیاآپ نے شادی بھی کی لیکن جلد ہی مفارقت ہو گئی۔
آپ شب وروز اپنے اپنے پیر و مرشد کی خدمت میں مشغول رہتے حتیٰ کہ جب آپ کے پیر صاحب کا وصال ہوا تو اُنکا سر آپ کی گود میں تھا۔
۱۹ صفر المظفر ۴۳۲ھ ؁بمطابق۱۰۳۹ء ؁ کو آپ کے پیر ومرشد نے آپکو لاہور آنے کا حکم دیا تو آپ نے عرض کی کہ وہاں میرے پیر بھائی محمد حسین زنجانی موجود ہیں تو آپ کے پیر صاحب نے فرمایا کہ حکم جو دے دیا ہے تو بغیر چو ن وچراں کے وہا ں چلے جاؤبالآخر آپ وہاں سے چلے اور سفر طے کرنے کے بعد شام کے وقت لاہور میں بھاٹی دروازے پہنچے اس وقت لاہور میں دروازے بند ہوچکے تھے۔
آپ نے رات بھاٹی دروازے کے باہر قیام فرمایا اور علیٰ الصبح جب دروازہ کھلا اور آپ اندر داخل ہو نے لگے آگے ایک جنازہ آ رہا تھا پوچھنے پر پتا چلا کہ یہ جنازہ تو آم کے پیر بھائی کا ہے جن کی آپ سے پہلے ڈیوٹی لگائی گئی تھی پھر آپ سمجھے پیر صاحب کے یہاں بھیجنے کا راز،آپ اپنے پیر بھائی کی تکفین و تدفین کے اختتام تک ساتھ رہے اُن کا مزار چاہ میراں میں ہے۔
آپ نے بھاٹی گیٹ کے باہر اُنچے ٹیلے پر پڑاؤ ڈالاپھر اپنے پیسوں سے ایک مسجد بنائی جسکا محراب بظاہر قبلہ سے مائل بجنوب تھاتو علماء اعتراضات کرنے لگے آپ نے فرمایا مسجد تعمیر تو ہو لینے دو جب مسجد تعمیر ہوئی تو آپ نے علماء کو اپنی مسجد میں نماز عصر کی دعوت دی تمام علماء نے عصر کی نماز آپ کی اقتداء میں اداء کی نماز کے اختتام میں آپ نے فرمایا کہ سبھی قبلہ کی طرف دیکھیں جب علماء نے قبلہ کی طرف دیکھا تو درمیان سے تمام پردے ختم ہو گئے اورسامنے کعبۃاللہ نظر آنے لگا جس پر تمام علماء نے اپنے اقوال سے رجوع کیا۔
جس دور میں آپ لاہور تشریف لائے اُس وقت سلطان مسعود ابن سلطان محمود کی سلطنت تھی اورلاہور کا گورنر رائے راجو ہندو تھا جو کہ بعد میں آپ کے دست حق پرست پر تائب ہوا۔
مسلسل 34 سال دین متین کی خدمت کرنے ک بعد 65سال کی عمر میں ۴۶۵ھ ؁ بمطابق 1072ء ؁ واصل بحق ہوئے اُسی چوٹی پر آپ کا مزار پر انوار بنایا گیا جہاں آپ نے 34سال دین مستقیم کی خدمت کی تھی وہ مزار آج بھی لاہور میں داتا دربار کے نام سے مشہور اور مرجع الخلائق ہے ایک محتاط اندازہ کے مطابق یہاں عام دنوں میں ہزاروں اور عرس شریف کے موقع پر لاکھوں لوگ حاضری دیتے ہیں نیز دن رات میں کوئی بھی ایسا لمحہ نہیں جب یہاں قرآن مجید کی تلاوت نہ ہو رہی ہو آپ کے وسیلہ سے دعا نہ کی جا رہی ہو نوافل نہ پڑھے جا رہے ہوں۔
آپکی سخت محنت و ریا ضت اور مجاہدات کا ہی نتیجہ ہے کہ آپ کے بعد سے لیکر آج تک ہر باطنی حکمران آپ ہی کی اجازت سے اپنے عہدہ پر فائز ہوتا ہے کوئی بھی مسلمان چالیس روز تک یہاں حاضرہو صدق دل سے اپنی جائز مراد پیش کرے وہ ضرور اپنی مراد کو پہنچتا ہے الحمد للہ راقم کا اپنا ذاتی تجربہ ہے کہ جب بھی حاضر ہو کر سورۃ یٰسین کی تلاوت کے بعد دعا میں صاحب مزار کے وسیلہ سے جو کچھ بھی طلب کیا اگر وہ میرے لیئے نفع بخش تھا تو ضرور ملا ورنہ اُسکا نقصان جلد ہی عیاں ہو گیا ۔
یہ مزار سب سے پہلے سلطان محمود غزنوی کے پوتے اور سلطان مسعود غزنوی کے بیٹے سلطان ابراہیم غزنوی نے تعمیر کر وایا پھر فرش اور ڈیوڑھی اکبر بادشاہ نے تعمیر کروائی اسکے بعد پھر تقریباً ہر اسلامی سلطنت کے والی نے اِس مزار کی تزئین و آرئش میں اپنا حصہ ڈالا حتیٰ کہ پاکستان بننے کے بعد یہ مزار صدر ایوب کے دور میں محکمہ اوقاف کی تحویل میں آگیا اُس کے بعد وزیر اعظم میاں نواز شریف کے دور میں اِس مزار کو تا ریخی وسعت دی گئی موجودہ مسجد میں پچاس ہزار لوگ بآسانی نماز ادا کر سکتے ہیں۔
سلطان ابراہیم غزنوی اور سلطان التمش نے خود اپنے ہاتھ سے قرآن مجید لکھ کر آپکی خانقاہ پر رکھوائے اور راجہ رانجیت سنگھ کو بھی قرآن مجید کا نسخہ ہاتھ لگ جاتا تو وہ اُسکو آپ کے مزار کی نذر کر دیتا 
آپ کے سرہانے والی سائیڈ پر پانی کی سبیل ہے جو کہ پہلے حوض تھا ہر وقت پانی سے بھرا رہتا ، زائرین یہاں سے پانی آنکھوں پہ لگاتے ،پیتے ، اور گھروں میں بطور تبرک لے جاتے ہیں۔
آپکی عظمت کا اندازہ اِس بات سے لگانا مشکل نہیں کہ مؤثر ترین نگاہ ،مقبول اِلٰی اللہ حضرت خواجہ معین الدین چشیے اجمیری ،ذاکر خدا حضرت بابا فرید گنج شکر ،مستجاب الدعوات حضرت میاں میر ، درویش منش حضرت بہلول دریائی(رحمۃاللہ علیھم)جیسی ہستیوں نے اپنے اپنے دور میں یہاں چلہ کشی کی سعادت حاصل کی۔
آپکی تصانیف میں کشف المحجوب اور کشف الاسرار کے نام منظر عام پر موجود ہیں لیکن انکے علاوہ نو کتابیں اور بھی آپ نے تصنیف فرمائیں جن کے اسماء درج ذیل ہیں۔
:1دیوان شعر :2کتاب فناء وبقاء :3نحو القلوب 
:4اسرارالخلق والمؤفات :5 الرعایۃ بحقوق اللہ تعالٰی :6کتاب البیان لاھل العیان
:7منہاج الدین :8 ایمان :9فرق الفرق
ویسے تو آپ (رحمۃاللہ علیہ) کے ملفو ظات بے شمار ہیں لیکن یہاں قرات قارئین کے لیئے کچھ پیش ہیں۔
:1نفس کی مخالفت سب عبادتوں سے بہتر ہے۔
:2بندے کیلئے سب چیزوں سے مشکل خدا کی پہچان ہے۔
:3دس چیزیں دس چیزوں کو کھا جاتی ہیں۔
توبہ گناہ کو جھوٹ رزق کو غیبت نیکی کو غم عمر کو صدقہ بلاؤں کو 
غصہ عقل کو پشیمانی سخاوت کو تکبر علم کو نیکی بدی کو عدل ظلم کو