میری پیدائش کو ابھی 3 سال مکمل نہ ہونے پائے تھے کہ عصر کے وقت ہمارے گھر کے نمبر پر ایک کال موصول ہوئی جو میری ننھیال کے رشتہ سے خالہ اور ددھیال کے رشتہ سے تائی اماں نے سنی دوسری جانب ماموں لطیف لائن پر تھے تائی اماں کے ہیلو کرنے پر انہوں نے فوراً پہچانتے ہو ئے باجی کہہ کر مخاطب کیا اور کہا '' خاموش رہئیے گا کسی کو نہیں بتائیے گا '' اس رازدارانہ انداز نے تائی اماں کو چونکا دیا انہوں نے حیرانی سے پوچھا '' لطیف خیر تو ہے '' اب کی بار جو آواز آئی اس سے بولنے والے کی شکستہ دلی واضح تھی اس جملے نے ہمارے تمام گھر والوں پر قیامت ڈھا دیا ، تائی اماں کے ہاتھوں فون کا ریسیور چھوٹ گیا، کاش ہمارے گھر میں ٹیلی فون ہی نہ ہو تا ، آج کے دن کا سورج ہی نہ نکلتا ، کاش کیلنڈر میں آج کا دن ہی نہ ہوتا کاش. . . . کاش. . . . . کاش. . . . تاکہ یہ خبر ہی ہم تک نہ پہنچتی کہ باجی جمیلہ فوت ہو گئیں ہیں .
تائی اماں کی چیخ نکل گئی روتے ہوئے کمرے سے باہر نکلیں اور آکر بڑی باجی جو نے صحن میں واشنگ مشین لگا ئے ہوئے تھیں انہیں سینے سے لگا لیا اور تائی اماں نے آہیں اور سسکیاں بھرتے ہوئے یہ خبر سنائی تو کوئی بھی ضبط نہ کر پایا ہر کوئی میری دونوں بہنوں کو سینے سے لگا کر دلاسے دینے لگا میں اس وقت 7 دن کم 3 سال کی عمر میں صحن میں بیٹھا کھیل رہا تھا ، اس نا آشنا منظر کو دیکھ کر رو دیا مجھ کیا معلوم تھا کہ ماں کی ممتا کیسے سایہ دار درخت کو کہتے ہیں جس کا پرتو اب میرے سر پہ نہیں رہا ، مجھے کیا شعور کہ جس کی گفتگو دعا ہو ، جس کی خدمت کرنا سعادت مندی ہو ، جس کی نظر میں رہنا رحمت اور قدموں کو چومنا جنت کی بشارت ہو اس مقدس ہستی کو ماں کہتے ہیں جس کی محبت اب میرے مقدر میں نہیں رہی . مجھے تو بس اتنا پتہ تھا کہ میری نظر جس کا تعاقب بھی کر رہی ہے وہ آنسو بہاتا آنکھیں پونچھتا ہی نظر آ رہا ہے کوئی لپک کے بھائیوں کا سر اپنے کندھے پہ رکھ کہ روتے ہوئے دلاسہ دے رہا ہے تو کوئی عورت بہنوں کو سینے سے لگا کہ تسلی دیتی ہوئی نظر آ رہی ہے کل تک میں جن کی گود میں سوتا تھا آج وہ خود ماں کی گود سے محروم ہو چکے تھے آدھی رات کے وقت امی جان کی میت نارووال پہنچی میں تو کیا معلوم کس کی گود میں سو چکا تھا
لیکن جن جن کی گود میں مجھے نیند آتی تھی وہ سب رات بھر جاگتے رہے سوائے امی جان کے وہ تو اب ابدی نیند سو چکے تھے انہیں تو ابھی کراما کاتبین کی طرف سے یہ بھی حکم ملنے والا تھا '' دلہن کی طرح سو جا ''
یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی کہ صوفی عبدالرشید رضوی صاحب کی زوجہ محترمہ قضائے الٰہی سے انتقال کر گئیں ہیں اسی طرح کے اعلانات بھی علی الصبح نارووال اور اس کے گردونواح کی مساجد میں ہونے لگے.
امی جان کی میت صحن میں عام و خاص خواتین کے لئے رکھ دی گئی خواتین آتیں اور امی جان کی زیارت کرتی ہوئیں بیٹھ جاتیں امی جان جو کے اس سے کچھ دن پہلے تک ہر آنے والے کو خود آگے بڑھ کے ملتیں آج انہیں بے بسی کے اس عالم میں دیکھ کر اور ہر جاننے والی یا انجان عورت کو روتا ہوا دیکھ کر میں اور بھی زاروقطار رونے لگا جب میں خاموش نہ ہوا تو احمد بھائی جو ابھی سات دن بعد میرے 3 سال کا ہونے پر مجھے بہت زیادہ چیزیں دلوانے والے تھے انہوں نے وہ چیزیں مجھے ابھی دلوا دیں کیونکہ میں تو چیزوں کے لالچ میں آکر چپ کر سکتا تھا باقیوں کو چپ کروانا ان کے بس میں نہیں تھا میں پھر روتے ہوئے سو گیا اس کے بعد جب اٹھا تو مجھے ابا جان کے پاس لے گئے وہاں ابا جان کے پاس مردوں کا جم غفیر تها ابا جان ہر آنے والے کو اٹھ اٹھ کے مل رہے تھے اتنے میں جنازے کا وقت ہو گیا ہر طبقہ فکر کے لوگوں نے اس میں شرکت کی لوگ قصیدہ بردہ شریف پڑھتے ہوئے جا رہے تھے جنازگاہ میں پہنچ کر ابا جان نے خود اپنی نگرانی میں صفیں بنوائیں اور جنازے کے بعد امی جان کو جامعہ معصومیہ کی مشرقی دیوار کے سائے میں دفن کیا گیا جہاں وہ ہر وقت کلام اللہ تعالیٰ کی تلاوت سنتی رہتیں ہیں یقیناً ان کو وہاں جا کر اجنبیت محسوس نہیں ہوئی ہو گی کہ جنہوں نے ساری زندگی قرآن مجید پڑہتے ہوئے استاذ القرآء کی زوجیت میں گزار دی ہو انہیں جب ہر وقت قرآن مجید کی تلاوت کی آواز آتی ہو گی وہ کیسے اجنبیت محسوس کر سکتیں ہیں.
اجنبیت کا احساس تو مجھ جیسے غریب المحبت الام کے لیے ہے کہ جب ہر کوئی ماں کے محبت بھرے سائے پروان چڑھ رہا ہو اور مجھ غریب کے دامن میں ماں کی ممتا جیسی دولت کی پھوار بھی نہ برسی ہو.
آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ یا الہی اپنی اس نیک بندی کو جس کی حمایت سے ہمارے گھر میں اسلامی ماحول پروان چڑھا، جنت الفردوس میں اپنے محبوب کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کا پڑوس عطا فرما
آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم
.
اقتباس از ابن عبدالرشید کی آٹو بائیوگرافی
تصنیف : محمد حسنین رضا ابن محمد عبدالرشید رضوی
Tuesday, July 7, 2015
ابن عبدالرشید کی آٹو بائیوگرافی تصنیف : محمد حسنین رضا ابن محمد عبدالرشید
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment